Regi Model Project in Peshawar Yet To See The Light Of Day

Photo courtesy: By Regi Bachavo Tehrik 


By Tayyeb Afridi
Started 25 years back by the Peshawar Development Authority (PDA), Regi Model Town project has yet to see the light of the day—thanks to the successive provincial governments who failed to materialize the biggest housing project of the provincial metropolis.

Land dispute with the locals besides construction of an approach road are stated to be the main obstacles in the way of this mega 27,000-house project. “Actually, this land was not properly acquired by PDA” said Ali Akbar, vice chairman of the Movement for Saving Regi Model Town. Had it been acquired properly there would have been no disputes, he added.

The claims of the residents of Regi village and its adjacent Kokikhel tribe over the land could be addressed if the government was serious to resolve the issue. This is why, Ali Akbar said, two zones of the project—Zone 2 and Zone 5—stand disputed. However, there is no controversy over 1,3,4 zones of the housing project.

Apart from land disputes, there is no direct approach road to the township. Earlier, a link road through Kacha Garhi was planned as without this road the project will be a sheer failure.Over the last 24 years, the cost of the project has also increased manifold. At the time of planning its estimated cost was Rs. 7 billion but now it has jumped to Rs. 35 billion.
Perhaps that is the reason PDA is not building any school, hospital, or playground in the undisputed zones, said Arsala Khan, a member of the Movement for Saving Regi Model Town.

Started in 1991, the project came to the limelight in 2000, when Malik Saad, then PDA director general, accelerated development work on Regi, restoring the confidence of the people to invest in this township. However, his transfer from to another department once again delayed the much-needed project.
Subsequently in 2008, the Awami National Party (ANP) government also demonstrated lack of political will to continue development work on this project and resolve land disputes. Instead, they floated the idea of establishing a new housing project—Asfandyar Township.

The residents of Peshawar pinned high hopes on Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) government in Khyber Pakhtunkhwa to treat this project fairly as they came in power with a slogan of change and good governance. But so far no significant progress on this project could be witnessed. However, like previous governments, PTI has also constituted a committee to resolve land disputes.

It was expected that after successfully handling Hayatabad Township to owners, the PDA will be able to make this biggest housing project a success but the dream is yet to be materialized.


http://www.radiotnn.com/regi-model-town-project-yet-to-see-the-light-of-day/

Why was TNN established?


Free Press Unlimited Recognizes TNN in the Geuzenpenning award


Representation of TNN at the Stichting Geuzenpenning award




In 2015, TNN was recognised by the The Geuzenpennning Foundation (Stichting Geuzenpenning) as a tribute to individuals or institutions that have “devoted themselves to fighting for democracy or against dictatorship, discrimination and racism.

BBC Urdu Reports on Tribal News Network


Presenter at TNN recording news bulletin. Photo courtesy Hani Taha



BBC Story on Tribal News Network 
’دا دے ٹی این این خبرونہ دی۔ زہ یم ناہید جہانگیر (یہ ٹی این این کی خبریں ہیں، میں ہوں ناہید جہانگیر۔۔۔‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بیٹھ کر پاکستان کے غیرسرکاری اور نجی نشریاتی ادارے کی جانب سے تیار کی گئی ایسی خبریں یقیناً اس خطے کے لوگوں کے لیے اچھی تبدیلی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے جنگ صرف بندوق کے زور پر نہیں لڑی جا رہی بلکہ معلومات کی فراہمی یا عدم فراہمی کے ذریعے بھی مدد لی جا رہی ہے۔
قبائلی علاقوں میں آزاد میڈیا آج بھی ایک خواب ہے جس کی تعبیر حاصل کرنے کی کوشش پشاور کی ایک نجی تنظیم نے کی ہے۔
اب تک اس علاقے کے لاکھوں کی آبادی کو معلومات کے حصول کے لیے یا تو سرکاری ریڈیو یا پھر غیرملکی نشریاتی اداروں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ جن علاقوں میں شدت پسندی کا مسئلہ ہے، وہیں معلومات سے متعلق خلا بھی موجود ہے۔
بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں معلومات کو پاکستان کے مرکزی دھارے کے میڈیا نے آج تک نظر انداز کیا ہے۔ ان کی ضروریات کیا ہیں اور کیسے پوری کی جا سکتی ہیں اس پر کم ہی دھیان دیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا سرے سے موجود ہی نہیں۔ شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں مقامی میڈیا کا پنپنا ابھی بھی مشکل ہے۔ ٹرائیبل نیوز نیٹ ورک نامی ایک غیرسرکاری نجی تنظیم نے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں ریڈیو کے لیے یہ انوکھی سروس شروع کی ہے۔
پشاور میں قائم ٹرائبل نیوز نیٹ ورک ان علاقوں میں نجی ایف ایم ریڈیو سٹیشنوں کو پشتو زبان میں دن میں دو مرتبہ مفت خبریں مہیا کرتا ہے۔ ٹی این این کے روح رواں اور بانی طیب آفریدی کہتے ہیں قبائلی لوگوں میں بھی حالات و واقعات سے اپنے آپ کو باخبر رکھنے کا اتنا ہی شوق ہے جتنا کسی اور خطے کے انسان کا ہوگا۔
’انھیں کسی آزاد مقامی نیوز ریڈیو چینل کی کمی کا سامنا ہے جو ان کو متوازن اور تنقیدی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے خبریں مہیا کر سکے۔ سرکاری ریڈیو کے علاوہ اب فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر اور فرنٹیئر کور کے ریڈیو آئے ہیں لیکن وہ تفریح پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ٹی این این بنانے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اس کمی کو انھی کے علاقے سے پورا کیا جا سکے۔‘
یہ ادارہ فی الوقت پانچ ایف ایم چینلوں کو یہ بلٹین مہیا کر رہا ہے۔ نجی ایف ایم سٹیشنوں کو خبریں چلانے پر ابتدا میں آمادہ کرنا طیب آفریدی کے لیے مشکل مرحلہ تھا۔ وہ خود بھی بیرونی امداد سے یہ منصوبہ چلا رہے ہیں۔
’ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ان کو دیتے یا ان کا ایئر ٹائم خرید سکتے۔ تو ہم نے بتایا کہ آپ اگر خبریں خود تیار کریں گے تو وسائل چاہیے ہوں گے، ہم آپ کو ان خبروں کے بدلے ریڈیو کی تربیت دیں گے جس پر وہ تیار ہو گئے۔‘
اس خبر رساں ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد قبائلی عوام کو تنقیدی خبریں فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے سماجی اور سیاسی موضوعات پر بہتر انداز میں بات کر سکیں۔
خیبر ایجنسی میں تہذیب نامی ریڈیو سٹیشن بھی خبریں نشر کرتا ہے۔
اس چینل کے ایاز رضا آفریدی سے یہ خبریں نشر کرنے کی وجہ جاننا چاہی: ’اس سے ہمارے سامعین کی تعداد بڑھی ہے اور ہمیں تیار خبریں مل جاتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں نہ تو کیبل ہے اور نہ ٹی وی، اخبار بھی دیر سے پہنچتا ہے۔ تو ہمارے لیے مارکٹنگ کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔‘
شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں پاکستانی سکیورٹی ادارے غیر ملکی سٹیشنوں کو موقع نہیں دینا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکری جنگ کے ساتھ ساتھ وہ نفسیاتی جنگ بھی لڑ رہے ہیں جس میں غیر ملکی اداروں کا کوئی کام نہیں۔
تاہم اس مقامی لوگوں کے لیے مقامی سٹیشن کے ذریعے مقامی خبروں کا امتزاج کیا رنگ دکھا رہا ہے۔ میں نے خیبر ایجنسی کے ہی چند باسیوں سے دریافت کیا تو ان میں سے اکثر نے موسم کا حال، شوبز نیوز اور زیادہ مقامی خبروں کا تقاضا کیا۔
اس منصوبے کے لیے غیرملکی امداد ہمیشہ کے لیے نہیں۔ لہٰذا طیب مستقبل کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں: ’ہم تین چار منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اشتہاری کمپنیوں سے سپانسر حاصل کرنا، دوسرا اپنے پروڈکشن ہاؤس میں دیگر اداروں کے لیے خصوصی پرگرام تیار کرنا اور موبائل صارفین کو انتہائی کم رقم کے عوض یہی خبریں فراہم کرنا بھی شامل ہے۔‘
ایم ایم پارٹنرز کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ کسی کی خبریں کیوں چلائیں۔ تہذیب ریڈیو کے ایاز آفریدی کہتے ہیں اگر پیسے دینے پڑے خبروں کے لیے تو پھر اس وقت دیکھیں گے۔
وانا سے لے کر دیر تک سنے جانے والے اس انوکھے تجربے کے لیے مستقبل میں چیلنج بہت ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ معاشی اور سرکاری دشواریوں کے بیچ میں یہ کیسے قبائلیوں کی ضرویات پوری کر پائے گا۔

Tayyeb Afridi talks about mobile news project providing free news to people in FATA and KP


During his fellowship at Stanford, Tayyeb Afridi explored, discovered and embraced new approaches to creating and operating independent news organisation and launched the Tribal News Network to serve the Tribal Areas of rural northwest Pakistan. “I realised that journalism is not only a public service, but also a business and should be treated like a business,” Afridi explained.

“This entrepreneurial aspect of journalism was a transformative experience for me.” Through his experiences and coursework at Stanford, Afridi also came to see that developing an information economy is vital to creating an informed society in his home region, because it would bring both jobs and information that people need.